۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
وقف

حوزہ/ وقف ترمیمی بل 2024، جس کا مقصد وقف املاک کے انتظام اور نگرانی کے نظام میں تبدیلی لانا ہے، مسلمانوں کے نزدیک اوقاف کی تباہی کے لئے قانون سازی کی ایک منظم سازش ہے، اس لیے مسلمان ہر سطح پر اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔

تحریر: عادل فراز

حوزہ نیوز ایجنسی| وقف ترمیمی بل 2024، جس کا مقصد وقف املاک کے انتظام اور نگرانی کے نظام میں تبدیلی لانا ہے، مسلمانوں کے نزدیک اوقاف کی تباہی کے لئے قانون سازی کی ایک منظم سازش ہے، اس لیے مسلمان ہر سطح پر اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں، فی الوقت یہ بل جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے پاس غور و خوض اور حتمی رائے دہی کے لئے گیا ہوا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی اس بل پر کیا رپورٹ پیش کرتی ہے کیونکہ اس میں بھی بی جے پی کے اراکین کی اکثریت ہے ۔اگر سرکار کا مقصد اس بل کے ذریعہ اوقاف کی املاک کا تحفظ اور موجودہ نظام میں اصلاح کرنا ہوتا تو اس بل کی آمادگی سے پہلے مسلمانوں سے گفت وشنید کی جاتی ۔گفت و شنید کے لئے وقف بورڈ کے اراکین اور چیئرمین حضرات اہم نہیں ہیں کیونکہ یہ سرکار کے منتخب کردہ لوگ ہوتے ہیں ،ان کے بجائے وقف کے ماہرین سے مشورہ کیا جاتا تاکہ یہ صورت حال معرض وجود میں نہ آتی ۔لیکن سرکار کا مقصد اوقاف کی جائدادوں پر قبضہ کرنا ہے کیونکہ ان کی آنکھوں میں اوقاف کا وجود کانٹے کی طرح کھٹکتاہے ۔یرقانی تنظیموں کے افراد تو اکثر کہتے ہوئے نظر آ ہی جاتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہندوئوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے اوقاف قائم کئے ہیں ،اس لئے سرکار بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہے ۔

وقف ترمیمی بل پرتمام ریاستوں کے وقف بورڈ کے اراکین اور چیئرمین حضرات کی خاموشی قابل دید ہے ۔انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ حکومتوں کے مخلص ہیں ملت کے نہیں ۔اس سے زیادہ ان سے توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے ۔کیونکہ وقف بورڈ میں رکن اور چیئرمین بننے کے لئے لوگ کس حد تک جاسکتے ہیں ،یہ کسی پر مخفی نہیں ہے ۔ تنہا تلنگانہ وقف بورڈ نے اس بل پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس کو ناقابل قبول قرار دیاہے ۔اگر اس جرأت کا مظاہرہ ہندوستان کے تمام وقف بورڈ کرتے تو اس کا الگ ہی اثر ہوتا۔ممکن ہے ان کی یہ مخالفت وقف ترمیمی بل کو منسوخ نہ کروا پاتی لیکن ملت سے ان کی وفاداری اور وقف املاک سے اخلاص تاریخ میں ثبت ہو جاتا، لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔خاص طور پر اترپردیش ،تلنگانہ ،کرناٹک ،مدھیہ پردیش ،پنجاب ،بنگال اور مہاراشٹر کہ جہاں سب سے زیادہ اوقاف کی جائدادیں موجود ہیں ،ان ریاستوں کے وقف بورڈ اب تک خاموش ہیں ۔ان کی خاموشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وقف بورڈ کے اراکین حکومت کے زیر اثر ہیں ۔وقف بورڈ میں اراکین کی اکثریت کو حکومت منتخب کرتی ہے جس کی بنیاد پر وہ ہمیشہ حکومت کی ایماپر کام کرتے ہیں ۔چیئرمین کسی بھی ریاست میں حکومت کی منشا کے خلاف منتخب نہیں ہوسکتا اس لئے اس کے فیصلے بھی آزادانہ نہیں ہوسکتے ۔اترپردیش اور بہار میں یہ صورت حال مزید تشویش ناک ہے ۔ان دونوں ریاستوں کے وقف بورڈ ز نے اب تک وقف ترمیمی بل پر کوئی آزادانہ رائے پیش نہیں کی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حکومتوں کے کس قدر وفادار ہیں ۔اکثر ریاستوں میں وقف بورڈز کے ممبران اور چیئرمین برسر اقتدار یا حزب مخالف جماعت کے رکن ہوتے ہیں ،اس لئے وہ اپنی سیاسی جماعت کے موقف کے خلاف نہیں جاسکتے ۔اس بناپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ اوقاف کے تئیں مخلص نہیں ہوتے بلکہ انہیں اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں ۔جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی نے بعض وقف بورڈ کے اراکین اور چیئرمین حضرات کو اجلاس میں مدعو کیا تھا،لیکن ان کی رائے اہم نہیں ہے اور نہ ان سے اس سلسلے میں بات کرنی چاہیے ۔وقف بورڈ اوقاف کی املاک کا نگراں ہوتا ہے مالک نہیں ۔دوسرے یہ کہ وقف بورڈ کے افراد ملت کے ترجمان نہیں ہوتے بلکہ سرکار کے منتخب کردہ لوگ ہوتے ہیں ،جو سرکار کے موقف کے خلاف نہیں جاسکتے ۔

وقف ترمیمی بل پر مسلمانوں کو چند خدشات لاحق ہیں ،جو وقف ترمیمی بل کے مسودے کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں ۔اس سے پہلے مسلمان وقف بورڈز کی کارکردگی اور ان کی نااہلی پر سوال اٹھاتے تھے لیکن اب تو اوقاف کی حیثیت خطرے میں ہے ،اس لئے مسلمانوں کا مشوش ہونا جائز ہے ۔مسلمانوں کو پہلا خدشہ یہ لاحق ہے کہ یہ بل وقف جائدادوں کی ملکیت اور ان کے کنٹرول پر براہ راست اثرانداز ہوسکتاہے ۔کیونکہ بل میں یہ کہاگیاہے کہ تمام اوقاف کی جائدادوں کو وقف کی ملکیت ثابت کرنے کے لئے وقف ناموں کا پیش کرنا ضروری ہے ۔اگر یہ بل تصویب ہو جاتا ہے تو اکثر اوقاف کی مالکانہ حیثیت ختم ہو جائے گی کیونکہ ان کے وقف نامے محفوظ نہیں ہیں ۔کچھ وقف نامے گردش زمانہ کی نذر ہوگئے اور کچھ وقف بورڈز کی نااہلی کی بنیاد پر غائب ہوگئے یا کردئیے گئے ۔متعدد بار وقف بورڈ کے دفاتر میں آگ زنی کے واقعات رونما ہوئے جن میں وقف کا ریکارڈ بھی متاثر ہوا۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وقف بورڈ ۱۹۲۳ ؁ء میں معرض وجود میں آیا اس لئے اس کے پاس تمام وقف املاک کا ریکارڈ موجود نہیں ہوسکتا۔دوسرا خدشہ یہ ہے کہ اس بل کے ذریعہ موقوفہ جائدادوں اور اداروں کی خودمختاری متاثر ہوگی ۔کیونکہ اس بل میں یہ بھی کہاگیاہے کہ وقف بورڈ انتظامیہ میں غیر مسلموں کو بھی رکھا جائے گا۔پہلا سوال تویہ ہے کہ آخر وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی موجودگی کو کیسے قانونی ٹھہرایا جا سکتا ہے؟یہ سراسر جبر اور آمریت کا شاخسانہ ہے ۔اگر سرکار دیگر قوموں اور مذہبوں کے اوقاف میں مسلمانوں کو نمائندگی دینے کی پہل کرتی ہے تو پھر مسلمان بھی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی نمائندگی پر سوال نہیں اٹھائیں گے ۔سرکار اس راہ میں کوئی پیش رفت نہیں کرسکتی کیونکہ اس کا اصل ہدف مسلمانوں کے اوقاف کی حیثیت کو ختم کرکے اپنے کنٹرول میں لینا ہے ۔اس بل میں یہ بھی کہاگیاہے کہ وقف املاک کی حیثیت کو برقرار رکھنے یا اس کو منسوخ کرنے کا آخری فیصلہ ضلع مجسٹریٹ کا ہوگا۔یعنی وقف نامہ بھی کسی جائداد کو وقف ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہوگا بلکہ ضلع مجسٹریٹ یہ فیصلہ کرے گاکہ آخر اس وقف جائداد کی حیثیت کو بحال رکھا جائے یا ختم کردیا جائے ۔اس بارے میں مجسٹریٹ کسی بھی معاملے کو دہائیوں تک التوا میں رکھ سکتا ہے اور جب تک وہ حتمی فیصلہ نہ کرے اس جائداد کو استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔یہ ایک مضحکہ خیز شق ہے اور اوقاف کو ختم کرنے کی منظم سازش کا حصہ ہے ۔آخر ضلع مجسٹریٹ کو اس بل میں اس قدر اختیار کیوں دیا جارہا ہے ؟ کیا اس سے پہلے الگ الگ ریاستوں کے مختلف اضلاع میں ان کی کارکردگی زیر سوال نہیں رہی ہے ؟اگر ضلع مجسٹریٹ کی ایمانداری اور کارکردگی کا مشاہدہ کرنا ہو تو سرکار اور جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو وقف حسین آباد لکھنؤ کی املاک کا دورہ کرنا چاہیے ۔جتنی عمارتیں اور جائدادیں وقف حسین آباد کی ملکیت ہیں ان کی خستہ حالی اور خالی پڑی زمینوں پر ناجائز قبضے یہ ظاہر کردیں گے کہ ضلع مجسٹریٹ نے کتنی ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ کام کیاہے ۔خاص طور پر سرکار نے جس طرح وقف املاک پر قبضے کرکے سرکاری دفاتر اور پارک بنائے ہیں ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اوقاف کے تحفظ کے لئے سرکار کس قدر مخلص ہے ۔اس لئے مسلمانوں کو اوقاف کے سلسلے میں نہ تو سرکار پر اعتماد ہے اور نہ ضلع مجسٹریٹ پر ۔رہا وقف بورڈ کا مسئلہ تو اس نے بھی ہمیشہ سرکاروں کے مفاد میں کام کیاہے اوقاف کے مفاد میں نہیں ،اس لئے ہم اس سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں!

وقف ترمیمی بل پر ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اس بل کی روسے تمام مذہبی عمارتوں کی حیثیت متاثر ہوگی ۔یعنی کسی مسجد ،خانقاہ یا امام باڑے میں خواہ کتنے ہی عرصے سے مذہبی سرگرمیاں انجام پارہی ہوں ،ان سے یہ ثابت نہیں ہوگاکہ وہ زمین مسجد ،خانقاہ یا امام باڑے کی ملکیت ہے ۔گویا ایک مسجد میں اگر دو ڈھائی سو سال سے نماز ہورہی ہے تب بھی یہ مدت اس زمین کو وقف کی ملکیت ثابت کرنے کے لئے ناکافی ہوگی ۔اب اس سے زیادہ مضحکہ خیز اس بل میں اور کیاہوگا۔دوسری طرف سرکار ان تمام مندروں کو قانونی حیثیت دے رہی ہے جو دوسروں کی زمین پر ناجائز طریقے سے تعمیر کئے جارہے ہیں ۔اگر سرکار اور ضلع مجسٹریٹ خاص طور پر ناجائز قبضوں کے خلاف ہیں تو اوقاف کی املاک پر گزشتہ پچاس سالوں کے دوران جو مندر تعمیر کئے گئے ہیں کیا ان کو ہٹوایا جا سکے گا ؟ وقف حسین آباد لکھنؤ کی زمینوں پر گزشتہ بیس سالوں میں درجنوں مندر قائم ہوگئے ہیں ،جن کو ہٹوانا اب آسان نظر نہیں آتا۔

مختصر یہ کہ وقف ترمیمی بل اوقاف کی بربادی کی ضمانت بن کر آیا ہے۔ اس بل کو مسترد کروانا تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے ۔خاص طور پر ان افراد کا جو الگ الگ سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں اور خود کو ملت کا ترجمان بتاتے ہیں ۔اگر یہ بل پاس ہوتا ہے تو وقف املاک کا انتظام حکومت کے ہاتھوں میں چلاجائے گااور تمام موقوفہ اداروں کی خودمختاری ختم ہو جائے گی۔ ملّی تنظیمیں اس بارے میں کوشاں ہیں، ان کی پشت پناہی بھی ضروری ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .